Blog اداریہ پہلا صفحہ

مودی، المیہ کہانی کا مرکزی کردار

مودی کی شخصیت ایک تحیر خیز ڈرامہ ہے، اس کے مکالمے بلند، اداکاری شاندار مگر اسٹیج پر سچ کا چراغ مدھم ہے

کہنے کو وہ بھارت کا وزیر اعظم ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا منتخب رہنما، جو عوامی مینڈیٹ سے اقتدار کی مسند پر براجمان ہے۔ چہرے پر خوداعتمادی کی دبیز تہہ، زبان پر “وشو گرو” کا نعرہ اور سینے پر 56 انچ کی چھاتی کا زعم۔ لیکن اگر پردے کی اوٹ سے دیکھا جائے تو یہ شخصیت محض ایک سیاسی کردار نہیں بلکہ نفسیاتی تضادات کا مجموعہ اور ایک خالی پن کا مارا ہوا کھُردرا وجود نظر آتی ہے۔ نریندر دامودر داس مودی، ایک ایسا شخص جس کی ذات میں انا کا شعلہ دہک رہا ہے اور دل میں ماضی کے مظالم کی راکھ ابھی بھی سلگ رہی ہے۔

مودی کو جاننے کے لیے اُس کے ماضی کی خاک چھاننی ہوگی۔ گجرات کے ایک چھوٹے سے قصبے سے نکلنے والا یہ شخص ابتدا میں آر ایس ایس کی خاکی نیکر میں ہندوتوا کی دلدل میں پروان چڑھا، جسے بانسری کی سُروں سے زیادہ لاٹھی کی زبان سمجھ آتی تھی۔ وہ تنظیم جو گاندھی جی کے قتل کے نظریاتی اسباب میں شمار ہوتی ہے، مودی اسی کی کوکھ سے پیدا ہوا۔ یہاں اسے دو سبق دیے گئے، اول یہ کہ بھارت صرف ہندوؤں کا ہے اور دوم یہ کہ مخالف کو مٹا دو، قائل مت کرو۔

سنہ 2002 کا گجرات اس کی شخصیت کا رخ متعین کرتا ہے۔ ایک وزیرِ اعلیٰ جس کی آنکھوں کے سامنے فسادات کی آگ میں انسانیت جھلس کر رہ گئی مگر وہ خاموش رہا یا شاید مطمئن رہا؟ اس خاموشی میں ایک دلفریب سفاکی تھی۔ مودی نے اس سانحے کو اپنی سیاسی مفادات کی زینت بنایا۔ وہ جانتا تھا کہ سیاست میں نفرت ایک طویل المدتی سرمایہ کاری ہے، جو سود مرکب سمیت واپس آتی ہے۔

مودی کی تقریریں سنیں تو لفظوں کی تراش خراش میں ایک خاص چالاکی دکھائی دیتی ہے۔ وہ جوش میں بولتا ہے، دلائل نہیں دیتا بلکہ نعرے لگاتا ہے، وہ مکالمہ نہیں کرتا بلکہ سوال سن کر مسکراتا ہے اور جواب نہیں دیتا۔ یہ سب ایک ایسے ذہن کا مظہر ہے جو اختلاف کو برداشت کرنے کے فن سے نا آشنا ہو۔ اس کی تقریریں سن کر کبھی یوں لگتا ہے جیسے کوئی ٹی وی اینکر شور مچا رہا ہو اور کبھی یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کسی نیم خواندہ پنچایت کا سرپنچ اپنی برتری کا اعلان کررہا ہو۔

مودی کی شخصیت میں ایک عجب تضاد ہے۔ وہ ایک طرف خود کو خاکسار کہتا ہے اور دوسری طرف اپنی تصاویر کو ہر سرکاری اشتہار میں چسپاں کراتا ہے۔ اس کی عاجزی میں تکبر چھپا ہوتا ہے اور سادگی میں نمائشی تفاخر۔ وہ یوگا کو روحانیت کا ذریعہ قرار دیتا ہے مگر سیاسی دشمنوں کو کچلنے کے لیے ایجنسیوں کو بے دریغ استعمال کرتا ہے۔ وہ خود کو فخر سے “چائے والا” کہتا ہے مگر آج اس کے دستخط اربوں کے سودوں، ارب پتی سرمایہ کاروں اور سوشل میڈیا کی سلطنت پر ہوتے ہیں۔

اس کی حکومت میں مسلمانوں کو جو کچھ سہنا پڑا وہ تاریخ کی تاریک سطروں میں لکھا جائے گا۔ وہ طلبہ جو جے این یو میں آزادی کا خواب دیکھتے تھے، غدار ٹھہرائے گئے۔ وہ شہری جو شہریت ترمیمی قانون کے خلاف آواز اٹھاتے تھے، لاٹھیاں کھاتے رہے اور وہ عورتیں جو شاہین باغ میں بیٹھی تھیں، ان کے بچوں کو “پاکستانی” کہہ کر دھتکار دیا گیا۔ یہ سب محض حادثات نہیں بلکہ یہ مودی کی سوچ کی منظم تصویر ہے۔ ایک ایسی سوچ جو بھارت کو سیکولر سے ہندو راشٹرا میں بدلنے کا خواب دیکھتی ہے۔

مودی کا سب سے بڑا ہتھیار اس کا “گودی میڈیا” ہے، جو اس کے ہر جھوٹ کو سچ کے غلاف میں لپیٹ کر عوام کے سامنے پیش کرتا ہے۔ یہ میڈیا اسے “وشو نیتا” بناتا ہے اور عوام اس چمک دمک میں حقیقت کو بھول جاتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا چمکتے چہروں کے پیچھے جھانکنے کی جرات کسی میں باقی ہے؟ کیا کسی میں اتنی ہمت ہے کہ وہ مودی سے پوچھ سکے کہ تمہارے ترقی کے دعووں کے پیچھے محرومیوں کا سمندر کیوں ٹھاٹھیں مار رہا ہے؟ تمہارے مندر کے پتھروں کے نیچے تعلیم، صحت اور روزگار کیوں دفن ہیں؟

مودی کی حکومت میں قانون کا ترازو بھی جھک گیا۔ عدالتیں خاموش، پولیس جانبدار اور پارلیمان تماشائی بن چکی۔ تنقید کرنے والے یا تو جیل میں ہیں یا دیارِ غیر میں۔ وہ ادارے، جن کا کام طاقت کو محدود کرنا تھا، وہ خود مودی کے قدموں میں بچھ گئے۔ سی بی آئی، ای ڈی اور این آئی اے، یہ سب مودی سرکار کی زبان بولتے نظر آتے ہیں۔ جمہوریت کا چوتھا ستون یعنی میڈیا، اب حکومت کا بلند آہنگ مائیک بن چکا ہے۔

بھارت میں معاشی میدان میں بھی حقیقت وہ نہیں جو دکھائی جا رہی ہے۔ چند کمپنیوں کو نوازا گیا، کروڑوں نوجوان بے روزگار، کسان خودکشیاں کرنے پر مجبور اور چھوٹے تاجر تباہ حال ہیں۔ مگر مودی ہر تقریر میں بھارت کو پانچ کھرب ڈالر کی معیشت بنانے کا خواب دکھاتا ہے، گویا خواب ہی اس کی سب سے بڑی پالیسی ہے۔

مودی کی خارجہ پالیسی بھی ضد اور جذباتیت سے لبریز ہے۔ پاکستان سے بات چیت کا دروازہ بند، چین سے آنکھ مچولی، نیپال، بنگلہ دیش اور سری لنکا سے تناؤ اور امریکہ کی خوشنودی کے لیے ہر حد تک جھک جانا۔ یہ ہے مودی کی علاقائی اور عالمی خارجہ پالیسی۔ بھارت کا عالمی چہرہ ایک متکبر اور خود پرست رہنما کا عکس بن چکا ہے۔ وہ اقوامِ متحدہ میں تقریر کرتا ہے تو دنیا کو بھارت کی قدیم تہذیب یاد دلاتا ہے مگر اپنے ملک میں اس تہذیب کے علمبرداروں کو دیوار سے لگاتا ہے۔

مودی کی شخصیت ایک تحیر خیز ڈرامہ ہے۔ اس کے مکالمے بلند، اداکاری شاندار مگر اسٹیج پر سچ کا چراغ مدھم ہے، جس کے نیچے اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔ وہ خود کو تاریخ کا معمار سمجھتا ہے مگر ممکن ہے کل تاریخ اسے تنگ نظر، متکبر اور انسانیت کا مجرم لکھے۔ اور شاید وہ وقت دور نہیں جب بھارت کے عوام، خاموشی کے اس شور سے بیزار ہو کر سوال کریں گے کہ مودی جی، کتنے اور الیکشن جیتو گے؟ کتنے اور دشمن پیدا کرو گے؟ اور کب تک خوف کو حکمرانی کا ذریعہ بناؤ گے؟

نریندر مودی ایک ایسی کہانی کا مرکزی کردار ہے، جو اپنے آغاز سے ہی المیہ تھی۔ مگر ہر المیہ کا ایک انجام ہوتا ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ یہ انجام کتنا دور ہے؟ اور اس انجام تک پہنچنے کے لیے بھارت کو اور کتنا نقصان سہنا پڑے گا اور اس خطے کے عوام کو خون کے اور کتنے دریا پار کرنا ہوں گے؟

Farhad Ahmad

Farhad Ahmad

About Author

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

تازہ ترین اپڈیٹس حاصل کریں سبسکرائب کریں۔

    info@theparass.com