Blog اداریہ پہلا صفحہ

نشان منزل، عبرت کا نشان

سرمایہ کاری کے لیے تحفظ کا یقین چاہیے اور مہنگائی کے جن کو قابو میں رکھنے کے لیے پیداواری نظام کا چلنا ضروری ہے

پاکستان ایک ایسا ملک جسے قدرت نے ہر رنگ سے نوازا، ہر موسم کی رم جھم بخشی اور زمین ایسی کہ جس پر چاندنی بھی اتر کر سجدہ کرے مگر یہ ملک آج ایک ایسی دلدل میں دھنستا جارہا ہے جہاں سے نہ منزل دکھائی دیتی ہے نہ راستہ۔ ایک طرف مہنگائی کا وہ طوفان جو ہر دروازے کی دستک بن چکا ہے، دوسری طرف بے روزگاری کی وہ آندھی جو گھروں کے چراغ بجھانے پر تُلی ہے اور ان کے بیچ احتجاجوں کا وہ نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے جو ہمارے ملک کی موجودہ بپتا کو بیان کرتا ہے۔ ایک ایسی بپتا جو ہر دن ایک نئے بحران سے رقم ہوتی ہے اور ہر مہینہ ایک نئے طوفان کو جنم دیتی ہے۔

جنوری سے اپریل 2025 تک کے صرف چار ماہ کی جھلک دیکھیں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے پاکستان احتجاجی سلسلوں کا میدانِ کارزار بن چکا ہے۔ کتنے دھرنے ہوئے؟ کتنے لانگ مارچ؟ کتنی ہڑتالیں؟ اگرچہ کوئی اعداد و شمار دستیاب نہیں، کوئی سرکاری بیان بھی میسر نہیں مگر ہر گلی، ہر نکڑ، ہر سڑک اور ہر چوراہا خود گواہ ہے کہ یہاں زندگی کی سانس رُکی ہوئی ہے۔ چائے والے کی کیتلی ٹھنڈی پڑچکی ہے، اخبار فروش کی آواز مدھم ہوچکی ہے اور درزی کی قینچی جیسے کسی انتظار میں ہے کہ کب حالات سدھریں، کب بازار کھلیں!

گزشتہ ایک برس کے واقعات پر اگر سرسری سی نظر بھی ڈالیں تو نومبر 2024 کی وہ “فائنل کال” ذہن میں تازہ ہوجاتی ہے، جب دارالحکومت اسلام آباد ہفتوں تک یرغمال بن کر رہ گیا تھا۔ سڑکیں بند، اسکول بند، دفتر بند، کاروبار بند اور گویا زندگی مکمل معطل۔ یہ فقط ایک واقعہ نہیں بلکہ اس تسلسل کا مظہر ہے جس میں ہر ہفتے کوئی نیا دھرنا، ہر ماہ کوئی نیا احتجاج اور ہر دن کوئی نئی قیامت برپا ہوتی ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ کیا یہ جمہوری حق ہے؟ یا ایک پھیلتی ہوئی افراتفری؟

سیاسی لیڈر احتجاج کو ووٹ حاصل کرنے کا آلہ بناتے ہیں اور حکومت لاٹھی کے ذریعے اپنی رٹ قائم رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔ ان دونوں کے بیچ وہ عام شہری ہے جو دن بھر کی مشقت کے بعد ایک روٹی کا خواب دیکھتا ہے مگر اسے احتجاجوں کے سائے نگل لیتے ہیں۔

رہا سوال ترقی کا تو کیا کوئی قوم اس حالت میں ترقی کرسکتی ہے؟ ہرگز نہیں۔ ترقی کے لیے امن و امان درکار ہوتا ہے، سرمایہ کاری کے لیے تحفظ کا یقین چاہیے اور مہنگائی کے جن کو قابو میں رکھنے کے لیے پیداواری نظام کا چلنا ضروری ہے۔ مگر ہمارے ہاں ہر دوسرے دن ہڑتال ہے، ہر ہفتے شٹر ڈاؤن اور ہر مہینے کوئی نئی آفت۔ ایسی فضا میں نہ کوئی صنعت پھلے گی نہ کوئی سرمایہ کار قریب آئے گا اور نہ ہی کوئی نوجوان مستقبل کی امید باندھ سکے گا۔

کبھی یہی وطن برصغیر کی روح کہلاتا تھا۔ جہاں کے کھیتوں کی مٹی سے خوشبو اُٹھتی تھی، جہاں کے بازاروں میں ثقافت گنگناتی تھی اور جہاں کے لوگ محبت اور محنت کا ترانہ بنے پھرتے تھے۔ آج وہی وطن احتجاج کی گونج میں سسک رہا ہے۔ قائداعظم کے خوابوں کی سرزمین اور علامہ اقبال کے شاہینوں کا دیس آج سڑکوں پر سلگتے ہوئے ٹائروں، آنسو گیس کے دھوئیں اور لاؤڈ اسپیکروں کی گھن گرج میں کہیں گم ہوچکا ہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ احتجاج کسی ایک دن، ایک مہینے یا ایک واقعے کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ تو اُس پرانے زخم کی ٹیسیں ہیں جو دہائیوں سے دل کے کسی کونے میں رس رہا تھا۔ سیاسی ناانصافیاں، معاشی زوال، سماجی ناہمواریاں اور عدمِ مساوات کے وہ ناسور جنہیں کبھی برف کا لیپ دے کر دبایا گیا آج وہی زخم چیخ چیخ کر اپنے ہونے کا اعلان کر رہے ہیں۔

سال 2025 کے پہلے چار ماہ کا منظرنامہ ایک داستانِ غم کی صورت پیش کرتا ہے۔ جہاں ہر احتجاج ایک سوال بن کر ابھرتا ہے اور ہر سوال کے پیچھے ایک محرومی چھپی ہوتی ہے۔ ایکلیڈ کی رپورٹ کہتی ہے کہ سیاسی تناؤ نے عوام کو احتجاج پر اکسایا۔ مگر ہم کیوں نہ پوچھیں کہ حکومت نے اس تناؤ کو کم کرنے کے لیے کیا کیا؟ کیا عوام کے زخموں پر مرہم رکھا؟ یا صرف بیانات کی پٹیاں باندھ کر آگے بڑھ گئی؟

یہ خاموشی جو احتجاجوں کے اعداد و شمار پر چھائی ہوئی ہے، کیا یہ محض اتفاق ہے؟ یا کوئی چالاکی؟ جب تک سچ سامنے نہیں آئے گا ، تب تک ہر احتجاج ایک “حادثہ” بن کر رہ جائے گا۔ بانی پی ٹی آئی کی گرفتاری کے بعد سے شروع ہونے والا احتجاجی سلسلہ صرف سیاسی مفادات کا غماز نہیں، یہ اُس کسان کی فریاد بھی ہے جس کے کھیتوں کو پانی میسر نہیں، یہ اُس مزدور کا نوحہ بھی ہے جس کے بچوں کی روٹی مہنگائی نگل گئی اور یہ اُس طالب علم کی بے بسی بھی ہے جس کا تعلیمی خواب دہشت گردی کے سائے میں لرزاں ہے۔

معاشی طور پر احتجاج ایک زہرِ قاتل ہے، جس کے نتیجے میں انٹرنیٹ کی بندش ایک فنی تعطل نہیں بلکہ اُن خوابوں کی موت بن کر سامنے آتی ہے جو ایک کمرے میں بیٹھے نوجوان فری لانسر نے دنیا کے آن لائن بازاروں میں سجائے تھے۔ شٹر ڈاؤن ایک دکان کے بند ہونے کا نام نہیں بلکہ اُس بیوہ کی آہوں کا تذکرہ بھی ہے جو اپنے ہاتھ کی سلائی بیچ کر اپنے بچوں کا پیٹ پالتی تھی۔ یہ “فسادات” نہ صرف غیر ملکی سرمایہ کاروں کو بددل کرتے ہیں بلکہ مقامی تاجروں کو بھی مایوسی کی کھائی میں دھکیل دیتے ہیں۔

ترقی کی صلاحیت کا حال یہ ہے کہ ہم ایک دائرے میں گھوم رہے ہیں۔ احتجاج ہوتا ہے، حکومت کریک ڈاؤن کرتی ہے، معیشت مزید زخم کھاتی ہے اور پھر نیا احتجاج جنم لے لیتا ہے۔ یہ وہ چکر ہے جس نے پاکستان کو ایک زخمی گھوڑے میں بدل دیا ہے، جو نہ دوڑ سکتا ہے، نہ رک سکتا ہے، بس اپنے ہی زخموں کی جلن میں تڑپتا رہتا ہے۔

ذمہ داری کی بات ہو تو دوسروں کی جانب انگلیاں اٹھتی ہیں مگر کوئی آئینہ نہیں دیکھتا۔ حکومت اپوزیشن کو موردِ الزام ٹھہراتی ہے، اپوزیشن ریاستی اداروں کو اور ریاست کسی “بیرونی ہاتھ” کو۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ یہ سارا نظام ہی اپنی ساکھ کھو چکا ہے۔

عالمی سطح پر ہمارا تاثر دن بہ دن بگڑتا جا رہا ہے۔ ایکلیڈ کی درجہ بندی ہمیں کنفلکٹ انڈیکس میں 12ویں نمبر پر رکھتی ہے جو کوئی اعزاز نہیں بلکہ لمحۂ فکریہ ہے۔ ہم ایک ایسی قوم بن چکے ہیں جو اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے ماضی کی شان و شوکت کو احتجاجوں کی آگ میں جلا رہی ہے۔ یہ درجہ بندی صرف اعداد و شمار کی نہیں بلکہ ہمارے اجتماعی ضمیر کے تاریک گوشوں کی خبر دیتی ہے۔

یقینا احتجاج بذاتِ خود ایک جمہوری عمل اور اظہارِ رائے کا خوبصورت ذریعہ ہے مگر جب یہی احتجاج عوامی زندگی کو مفلوج کرنے لگے، جب ان کے باعث بچوں کے اسکول بند ہوجائیں، جب مریض ہسپتال نہ پہنچ سکیں اور مزدور کی مزدوری چھن جائے تو یہ احتجاج جمہوریت کی زینت نہیں بلکہ تباہی کا نشان بن جاتے ہیں۔

پاکستانیوں کو اب خود سے سوال کرنا ہوگا کہ کیا ہم اپنے ہی ہاتھوں اپنے گھر کو جلا رہے ہیں؟ کیا غیر ملکی برانڈز کی اینٹیں توڑنے سے ہمارے مسائل حل ہوجائیں گے؟ کیا سڑکوں پر خون بہا کر ہم اپنے زخم بھر پائیں گے؟ نہیں، ہرگز نہیں۔ مسائل کا حل صرف تب نکلے گا حکومت اور اپوزیشن دونوں کے ایجنڈے میں عوام کو ترجیح دی جائے گی۔

احتجاج کسی ملک کی رگِ جاں ہوتے ہیں مگر جب یہ رگ ہر ہفتے کٹنے لگے، جب ہر ماہ خون بہے، تو پھر ملک جسمانی طور پر ہی نہیں بلکہ روحانی طور پر بھی کمزور ہو جاتے ہیں۔ پاکستان آج اسی نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ ہم نے احتجاج کو اپنی عادت، ترقی کو خواب اور امن کو افسانہ بنا دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم جاگیں گے؟ یا پھر اسی دلدل میں دھنسے رہیں گے؟ فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے مگر وقت کا دروازہ ہمیشہ کھلا نہیں رہتا۔ اگر اب بھی ہم نے ہوش نہ سنبھالا تو تاریخ ہمیں صرف عبرت کا نشان بنا کر چھوڑ دے گی۔ تو کیا ہمارا نشان منزل عبرت کا نشان بننا ہی رہ گیا ہے؟

Farhad Ahmad

Farhad Ahmad

About Author

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

تازہ ترین اپڈیٹس حاصل کریں سبسکرائب کریں۔

    info@theparass.com